صحرا نورد کا قصہ
ہنسی کاٹ کے بھیڑ سے نکل آیا
گاڑی کی رفتار، خون کی گردش یکساں تیز ہوئی
صحرا نورد شہر کی جانب بڑھا
مٹی کے اونچے ٹیلوں پر
اس نے ایک دن یونہی خواب دیکھا تھا
آدمی خواب دیکھتا ہے
اس لیے شاید وہ زندہ رہتا ہے
مگر آدمی شاعری بھی کرتا ہے
شاعری مگر آزردگی ہے
آزردگی بھی تو زندگی ہے
مٹی کے اونچے ٹیلوں پر
یونہی ایک دن سوچا اس نے
صحرا نورد ہجرت کر کے
دور کسی اجنبی دیس پہنچا
بس اسٹاپ پر انتظار کرتے ہوئے
اس نے سوچا
کاش وہ اپنے جسمانی اعضاء کو
مضمحل ہونے سے روک پاتا
مگر کیا ایسا کرنے سے
وہ اپنے لاشعور کو
یہ سوچنے سے روک سکتا؟
کہ زندگی انتظار میں کٹے گی
ایک ان دیکھی امید کی
جو عین وقت پر دل توڑ سکتی ہے
مگر زندگی شاید یہی ہے اور اسے
اپنے گھر کا رستہ مجھ سے بہتر معلوم ہے
جاب ملنے پر بہت خوش ہوا وہ
شادی ہوئی تو لگا اسے کہ زندگی کتنی حسین ہے
شام ڈھلی تو اس نے شام ڈھلنے کو سراہا
رات کٹی تو وہ نئے دن کے لیے پہلے سے تیار ملا
دھواں دھار تقریریں کر ڈالیں
زندگی جینے کے سنہرے اصولوں کے نام سے
کتاب مرتب کی
پھر ایک دن گھر لوٹتے ہوئے
وہ اچانک تھک گیا
وہ صحرا جسے بہت پہلے
وہ ایک دوسرے ملک چھوڑ آیا تھا
وہ اس کے سینے پر آ چکا تھا
تنویر حسین
No comments:
Post a Comment