کس جگہ ہم سفر و رختِ سفر چھوڑ دیا
یہ بھی معلوم نہیں خود کو کدھر چھوڑ دیا
جانے والے کے تعاقب میں گیا تھا اک دن
خود پلٹ آیا ہوں آنکھوں کو اُدھر چھوڑ دیا
چاہتا تھا کہ محبت کا نشاں باقی رہے
میں نے سب زخم بھرے، زخمِ جگر چھوڑ دیا
پھر کبھی گردشِ دوراں نہ ملائے گی ہمیں
تُو نے اک بار مِرا ہاتھ اگر چھوڑ دیا
تیری آواز سنی اور میں عجلت میں چلا
اتنی عجلت میں چلا جسم بھی گھر چھوڑ دیا
میرا دشمن مِرے بارے میں بڑا جانتا ہے
اس نے دستار اچھالی، مِرا سر چھوڑ دیا
رئیس جامی
No comments:
Post a Comment