Saturday, 7 January 2023

تمام خوشیوں کو بس ایک غم نے گھیر لیا

 تمام خوشیوں کو بس ایک غم نے گھیر لیا

عجیب ہے کہ زیادہ کو کم نے گھیر لیا

کنیزیں، مالِ غنیمت کے ساتھ آتی رہیں

محل کا نصف، کم از کم، حرم نے گھیر لیا

پتہ تھا اس سے بچھڑتے ہی دوست گھیریں گے

وہی ہوا، مجھے رنج و الم نے گھیر لیا

ہمارے خواب بڑے اور آنکھیں چھوٹی تھیں

جگہ بنائی تو اُس کو بھی نم نے گھیر لیا

ہماری جیب میں بچپن سے تھی قلم کی جگہ

بڑے ہوئے تو اسے بھی رقم نے گھیر لیا

مقدسات کی نگرانی کرنا پڑتی ہے

اِسی اصول کے تحت اس کو ہم نے گھیر لیا


عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment