تمام خوشیوں کو بس ایک غم نے گھیر لیا
عجیب ہے کہ زیادہ کو کم نے گھیر لیا
کنیزیں، مالِ غنیمت کے ساتھ آتی رہیں
محل کا نصف، کم از کم، حرم نے گھیر لیا
پتہ تھا اس سے بچھڑتے ہی دوست گھیریں گے
وہی ہوا، مجھے رنج و الم نے گھیر لیا
ہمارے خواب بڑے اور آنکھیں چھوٹی تھیں
جگہ بنائی تو اُس کو بھی نم نے گھیر لیا
ہماری جیب میں بچپن سے تھی قلم کی جگہ
بڑے ہوئے تو اسے بھی رقم نے گھیر لیا
مقدسات کی نگرانی کرنا پڑتی ہے
اِسی اصول کے تحت اس کو ہم نے گھیر لیا
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment