ٹپکی جو شوخیوں کی ادا سر سے پاؤں تک
ڈوبی عرق میں ان کی حیا سر سے پاؤں تک
خدا بچائے تمہاری نشیلی آنکھوں سے
کہ اک نظر جسے دیکھا وہ پھر سنبھل نہ سکا
یہ بھی تھی اک ادا کہ وہ آئے کسی کے پاس
اوڑھے ہوئے ردائے حیا سر سے پاؤں تک
اب شوخیاں بھی لیں گی بلائیں حضور کی
صدقے تو ہو چکی ہےحیا سر سے پاؤں تک
کس پیچ میں پڑی ہے نزاکت کی جان آج
لپٹی ہوئی ہے زلف دوتا سر سے پاؤں تک
شوق نیموی
No comments:
Post a Comment