Thursday, 5 January 2023

گلاب زرد پڑے ہیں سب انتظار کے دوست

 گلاب زرد پڑے ہیں سب انتظار کے، دوست 

خزاں میں آ کے ملے ہیں مجھے بہار کے دوست

تمہیں نشانہ لگانا سِکھا رہے ہیں جو لوگ

تمہاری صف میں کھڑے ہیں مِری قطار کے دوست

مِرے نصیب میں خوشیاں وہ لوگ بھر رہے ہیں 

جو لوگ پھول کے دشمن ہیں اور خار کے دوست 

سیاہ رات ہے فُرقت کہ پُر خطر رستہ

اسے گزر کے سمجھ لو یا پھر گزار کے دوست

کوئی نظر مِرے سُوکھے ہوئے نصیب کی سمت

سمندروں کے پڑوسی، اے آبشار کے دوست

میں انتظار کی  ٹہنی سے گِر بھی سکتا ہوں 

کہیں سنبھال کے رکھ لو مجھے اتار کے دوست 

ستم گروں نے جدائی تو ڈال دی ہے، مگر

دلوں میں بستے رہیں گے ہمیشہ پار کے دوست 


رئیس جامی 

No comments:

Post a Comment