جن کو اس کارِ محبت میں کمال آتے ہیں
ایسے لوگوں ہی پہ حد درجہ زوال آتے ہیں
صاف بچ جاتے ہیں وہ لوگ جو دل توڑتے ہیں
ٹوٹے دل والوں پہ ہی سارے سوال آتے ہیں
رفتہ رفتہ ہی تحمل سے لیا جاتا ہے کام
پہلے پہلے تو طبیعت میں ابال آتے ہیں
جس سے ہم ترکِ تعلق کا تہیہ کر لیں
دن میں سو بار ہمیں اس کے خیال آتے ہیں
عشق کرنا ہو تو پھر اندھا بھروسہ کرنا
دل کے آئینے میں تشکیک سے بال آتے ہیں
صبح کو اس کی تمنا لیے چلتی ہے ہمیں
شام کو اپنی طرف سخت نڈھال آتے ہیں
ہجر مٹ جائے تو پھلتا ہے محبت کا وجود
تھور گھٹ جائے زمیں سے تو جمال آتے ہیں
حنا عنبرین
No comments:
Post a Comment