حادثے پر کتر گئے شاید
حوصلے دل کے مر گئے شاید
خُود میں ڈُوبے تو یُوں ہُوا محسوس
ہم کنوئیں میں اُتر گئے شاید
سخت لہجے میں گُفتگو ہم سے
دن تمہارے بھی بھر گئے شاید
ناز کرتی تھیں جن پہ تلواریں
شاخِ گُل سے وہ ڈر گئے شاید
آندھیوں کی مُراد بر آئی
آشیانے بِکھر گئے شاید
جب محبت کی قدر ہوتی تھی
وہ زمانے گُزر گئے شاید
آئے تھے پُھول بانٹنے والے
آگ ہاتھوں پہ دھر گئے شاید
جو اندھیروں میں چُھپ کے بیٹھے ہیں
وہ اُجالوں سے ڈر گئے شاید
ظہیر عالم
No comments:
Post a Comment