دل خراب کے احکام ٹھیک لگنے لگے
لیے جو فیصلے ناکام، ٹھیک لگنے لگے
مِرا شمار ان ہی سر پھروں میں ہوتا ہے
جنہیں اداسی سرِ شام ٹھیک لگنے لگے
سماعتوں کو خموشی کی وہ اذیت دو
کہ ارد گرد کا کُہرام ٹھیک لگنے لگے
ہماری خاک پہ کوزہ گروں نے محنت کی
تو تب یہ فرق پڑا، دام ٹھیک لگنے لگے
چلوں تو دل کہے رُک جائے گُھومتی دُنیا
رُکوں تو گردشِ ایام ٹھیک لگنے لگے
ہماری ٹُوٹنے کے بعد ایسی حالت ہے
کہ گھر کے خستہ در و بام ٹھیک لگنے لگے
کبھی لگے؛ نہیں، مجھ سے بُرا سلوک ہوا
کبھی کہانی کا انجام ٹھیک لگنے لگے
غلط کو اتنے تسلسل سے ٹھیک کہتے رہو
کہ جو غلط ہو وہی کام ٹھیک لگنے لگے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment