خواب جیسی ہے جو تعبیر میں آئی ہوئی ہے
تُو مِری وادی کشمیر میں آئی ہوئی ہے
اپنے بچوں کو کفن دیتے ہیں خود ہاتھوں سے
یہ روایت ہمیں جاگیر میں آئی ہوئی ہے
یا تو کشمیر کی اک لختِ جگر ہے جنت
یا وہ جنت ہے جو کشمیر میں آئی ہوئی ہے
برف ہے جھیل ہے اور پھولوں کی خاصی تعداد
اس پہ یہ آگ بھی تقدیر میں آئی ہوئی ہے
اصل تصویر میں بس خون ہے اور آنسو ہیں
وہ نہیں جو تِری تشہیر میں آئی ہوئی ہے
کانگڑی ساتھ لیے پھرتے ہیں سارے رانجھے
برف سی سرد روی ہیر میں آئی ہوئی ہے
ماریہ نقوی
No comments:
Post a Comment