وقت کا کیا ہے مرے یار، بدل جاتا ہے
آگ لگتی ہے تو بازار بدل جاتا ہے
ہم درختوں کے تو پھل بھی نہیں بدلے اب تک
ان پرندوں کا تو گھر بار بدل جاتا ہے
خواب ہر بار صدائیں دئیے رہ جاتے ہیں
اک ارادہ ہے کہ ہر بار بدل جاتا ہے
رات بھر وصلِ مسلسل میں مگن رہتا ہوں
آنکھ کھلتی ہے تو کردار بدل جاتا ہے
مان لیتا ہوں تجھے مجھ سے محبت ہو گی
پر محبت میں اداکار بدل جاتا ہے
بین کرتے ہوئے احمد کو یہ معلوم نہیں
بین سے رنج کا معیار بدل جاتا ہے
احمد طارق
No comments:
Post a Comment