یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے
اس اعتبار سے دل درد کا مکاں ہی تو ہے
نہیں ہے پرسش احوال کے لیے کوئی
بس ایک مجمع ارواح رفتگاں ہی تو ہے
یہ داستان تمنا عجب سہی پھر بھی
بھلا ہی دے گا زمانہ کہ داستاں ہی تو ہے
یہ اور بات ابھی انقلاب آ جائے
حیات ورنہ ابھی تک وبال جاں ہی تو ہے
سکوں کا ایک بھی لمحہ ہو کیوں مقدر میں
یہ عہد زیست بھی دور ستم گراں ہی تو ہے
رلا دیا ہے گھٹا کے سلوک نے بیدی
مگر یہ تشنہ لبی ایک امتحاں ہی تو ہے
جاوید اختر بیدی
No comments:
Post a Comment