Monday, 2 January 2023

یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے

 یہ اپنا شہر جو ہے دشت بے اماں ہی تو ہے

اس اعتبار سے دل درد کا مکاں ہی تو ہے

نہیں ہے پرسش احوال کے لیے کوئی

بس ایک مجمع ارواح رفتگاں ہی تو ہے

یہ داستان تمنا عجب سہی پھر بھی

بھلا ہی دے گا زمانہ کہ داستاں ہی تو ہے

یہ اور بات ابھی انقلاب آ جائے

حیات ورنہ ابھی تک وبال جاں ہی تو ہے

سکوں کا ایک بھی لمحہ ہو کیوں مقدر میں

یہ عہد زیست بھی دور ستم گراں ہی تو ہے

رلا دیا ہے گھٹا کے سلوک نے بیدی

مگر یہ تشنہ لبی ایک امتحاں ہی تو ہے


جاوید اختر بیدی

No comments:

Post a Comment