Saturday, 7 January 2023

صبر کے جتنے تقاضے تھے وہ پورے رکھے

 صبر کے جتنے تقاضے تھے وہ پورے رکھے

پھر بھی سینے میں کوئی کتنے کلیجے رکھے

ہم نے بہنے دیا ظالم کی بغاوت میں لہو

حاکمِ وقت کی چوکھٹ پہ جنازے رکھے

تو قضا کرتا رہا ہم کو نمازوں کی طرح

ہم نے عیدوں پہ تِرے نام کے روزے رکھے

خط میں اظہار کے الفاظ کا دم گُھٹ ہی گیا

پُھول مُرجھا ہی گئے جیب میں رکھے رکھے

جس نفاست سے بناتا ہے وہ شخص اپنے قفس

اس کی مرضی ہے میاں جیسے پرندے رکھے

منہ چھپانے کو جگہ ملتی نہیں جس کے سبب

ہم نے اس شخص کے ہر عیب پہ پردے رکھے

میری الماری میں اک عمر سے رنجیدہ ہیں

تیرے کنگن، تِرے جھمکے، تِرے جوڑے رکھے


اسامہ خالد

No comments:

Post a Comment