صبر کے جتنے تقاضے تھے وہ پورے رکھے
پھر بھی سینے میں کوئی کتنے کلیجے رکھے
ہم نے بہنے دیا ظالم کی بغاوت میں لہو
حاکمِ وقت کی چوکھٹ پہ جنازے رکھے
تو قضا کرتا رہا ہم کو نمازوں کی طرح
ہم نے عیدوں پہ تِرے نام کے روزے رکھے
خط میں اظہار کے الفاظ کا دم گُھٹ ہی گیا
پُھول مُرجھا ہی گئے جیب میں رکھے رکھے
جس نفاست سے بناتا ہے وہ شخص اپنے قفس
اس کی مرضی ہے میاں جیسے پرندے رکھے
منہ چھپانے کو جگہ ملتی نہیں جس کے سبب
ہم نے اس شخص کے ہر عیب پہ پردے رکھے
میری الماری میں اک عمر سے رنجیدہ ہیں
تیرے کنگن، تِرے جھمکے، تِرے جوڑے رکھے
اسامہ خالد
No comments:
Post a Comment