سنا ہے دل کا ذمہ بس ہے اتنا سا
اِدھر کے کچھ لہو کو یہ اُدھر دھکا لگاتا ہے
ہزاروں ماہرینِ دل کا اجماع ہے تو ٹھیک ہو گا
مگر کچھ ماہ سے سینے میں حِدت کی کمی سی ہے
لہو کی آنیاں اور جانیاں اب بھی برابر ہیں
جسے وہ بی پی کہتے ہیں وہ حد میں ہے
لِپڈ کے ٹیسٹ میں بھی ایل ڈی ایل اوقات میں نکلا
بظاہر نارمل ہے سب
اگر یہ دل کہ جس کو ماہرینِ دل محض اک پمپ کہتے ہیں
فقط اک پمپ ہوتا تو
مِری آنکھیں نہ بُجھتی یوں
سماعت منتظر ہوتی کسی گمنام دستک کی
مِرے ہاتھوں کی لرزش اور قدموں کا یہ بوجھل پن
یہ امیدوں کی قبریں اور ہمت کا جنازہ سب
چراغِ دل کی مرتی ڈوبتی لَو کی علامت ہیں
خدایا مجھ منافق بد عمل کے مرتے بُجھتے دل کو دے رونق
دِکھاوے کو ہی ہے شہرت تِرا بندہ
تِرے در کے سوا ہر در کو دیواروں میں گِنتا ہے
خدایا گُھپ اندھیرا ہے
خدایا سہما بیٹھا ہوں
خدایا میرے دل کو زندگی دے دے
خدایا اس دِیے کو روشنی دے دے
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment