زہر نبضوں میں زمانے کا بھرا جاتا ہے
قہقہے مرتے ہیں تو شعر کہا جاتا ہے
لوگ ہیں حسن کو ترسے ہیں برا مت مانیں
چھوڑئیے دیکھنے دیں آپ کا کیا جاتا ہے
آگ ہو راکھ ہو بارود ہو جن میں ہر وقت
ان ہواؤں میں بتا کیسے اڑا جاتا ہے
کچھ نہیں تو یہ سہولت بھی یہاں کافی ہے
رونے والوں پہ سدا کھل کے ہنسا جاتا ہے
ہجر آسان ہوا ہے تِرا اتنا اے شخص
اب تجھے یاد بھی مشکل سے کیا جاتا ہے
باقی ردی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں
ایک چہرے کو مگر دل سے پڑھا جاتا ہے
اس لیے چھوڑ دیا بھیس بدلنا میں نے
مجھ کو ہر روپ میں پہچان لیا جاتا ہے
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment