Monday, 9 January 2023

زہر نبضوں میں زمانے کا بھرا جاتا ہے

 زہر نبضوں میں زمانے کا بھرا جاتا ہے

قہقہے مرتے ہیں تو شعر کہا جاتا ہے

لوگ ہیں حسن کو ترسے ہیں برا مت مانیں

چھوڑئیے دیکھنے دیں آپ کا کیا جاتا ہے

آگ ہو راکھ ہو بارود ہو جن میں ہر وقت

ان ہواؤں میں بتا کیسے اڑا جاتا ہے

کچھ نہیں تو یہ سہولت بھی یہاں کافی ہے

رونے والوں پہ سدا کھل کے ہنسا جاتا ہے

ہجر آسان ہوا ہے تِرا اتنا اے شخص

اب تجھے یاد بھی مشکل سے کیا جاتا ہے

باقی ردی کی طرح پھینک دئیے جاتے ہیں

ایک چہرے کو مگر دل سے پڑھا جاتا ہے

اس لیے چھوڑ دیا بھیس بدلنا میں نے

مجھ کو ہر روپ میں پہچان لیا جاتا ہے


فقیہہ حیدر

No comments:

Post a Comment