Tuesday, 10 January 2023

حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو

 حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو

کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو

سات سروں کی لہروں پہ ہلکورے لیتے پھول سے ہیں

اک مدہوش فضا سنتی ہے اک چڑیا کے گانے کو

بولتی ہو تو یوں ہے جیسے پھول پہ تتلی ڈولتی ہو

تم نے کیسا سبز کیا ہے اور کیسے ویرانے کو

لیکن ان سے اور طرح کی روشنیاں سی پھوٹ پڑیں

آنسو تو مل کر نکلے تھے آنکھ کے رنگ چھپانے کو

جیسے کوئی جسم کے اندر دیواریں سی توڑتا ہے

دیکھو، اس پاگل وحشی کو روکو اس دیوانے کو


سعود عثمانی 

No comments:

Post a Comment