Sunday 1 January 2023

اب جدھر بھی جاتے ہیں آدمی کو پاتے ہیں

 اب جدھر بھی جاتے ہیں


پہلے ایسا ہوتا تھا

بھانت بھانت کے بندر

شہر کی فصیلوں پر

محفلیں جماتے تھے

گھر میں کود آتے تھے

ہاتھ میں سے بچوں کے

روٹی نوچ جاتے تھے

اب تو وہ مداری بھی

خالی ہاتھ آتا ہے

بھیک مانگ کر گھر گھر

گھر کو لوٹ جاتا ہے

اب گھروں میں چڑیوں کا

شور کیوں نہیں ہوتا

رات کو کوئی الو

پیڑ پر نہیں روتا

پیڑ پر نہیں روتا

لڑتے لڑتے چڑیاں کیوں

فرش پر نہیں گرتیں

بلیاں چھتوں پر کیوں

گھومتی نہیں پھرتیں

اب نہ کوئی بلبل ہے

اور نہ کوئی مینا ہے

اب نہ کوئی تیتر ہے

اور نہ کوئی طوطا ہے

کس سے پوچھنے جائیں

مور کیسا ہوتا ہے

ٹولیاں کبوتر کی

کھو گئیں فضاؤں میں

تتلیوں کے رنگیں پر

بہہ گئے ہواؤں میں

منہ اندھیرے اب مرغا

بانگ کیوں نہیں دیتا

گھر میں کوئی بکری کا

نام کیوں نہیں لیتا

کیا ہوئے درختوں پر

گھونسلے پرندوں کے

کوئی بھی نہیں کہتا

قصے اب درندوں کے

ننھے ننھے چوزوں پر

چیل کا جھپٹنا اب

دیکھنے کہاں جائیں

راستے میں سانڈوں کا

پہروں لڑتے رہنا اب

دیکھنے کہاں جائیں

چھپکلی کی جیتی دم

اب تھرکتی کیا پائیں

رنگ بدلتے گرگٹ کو

مارتے کہاں جائیں

گائے بھینس کا ریوڑ

اب ادھر نہیں آتا

اونٹ ٹیڑھا‌ میڑھا سا

اب نظر نہیں آتا

اب نہ گھوڑے ہاتھی ہیں

اور نہ وہ براتی ہیں

اب گلی میں کتوں کا

بھونکنا نہیں ہوتا

رات چھت پہ سوتے ہیں

بھوت دیکھ کر کوئی

چونکنا نہیں ہوتا

اب جدھر بھی جاتے ہیں

آدمی کو پاتے ہیں


محمد علوی

No comments:

Post a Comment