بدن میں چبھن اور دل جل رہا ہے
کہ سینے میں کوئی ستم پل رہا ہے
نہیں شے کو حاصل زمانے میں دائم
تغیّر جہاں میں مسلسل رہا ہے
چلو گھر چلیں ہم کہ اب رات آئی
جوانی کا سورج بھی اب ڈھل رہا ہے
سفر زندگی کا یہ جیسا بھی گزرا
سدا سر پہ ماں تیرا آنچل رہا ہے
کہ اترائے کیوں کوئی ہستی پہ اپنی
نہیں آج وہ ہم میں، جو کل رہا ہے
کسی کے جنازے کا ماتم گھڑی دو
زمانے کا دستور ہے، چل رہا ہے
تلاشِ سکوں میں بھٹکتا رہا ہوں
کہ گردش میں آوارہ بادل رہا ہے
خبر ان کو میری زرا بھی نہیں ہے
یہ دل اس کے ہی غم میں کیوں گھل رہا ہے
نہ ڈر مجھ سے اشہر یہ سب کہتے کہتے
وہ میرا ہی گھر ہے جو جل رہا ہے
اشہر اشرف
No comments:
Post a Comment