درد میں ڈوب کے پھر درد کا درماں نہ رہا
"زندگی! اب تِرا کوئی بھی عنواں نہ رہا"
زخم رستے ہی رہے خوگر نہ ہوئی میں ان کی
اس کی چارہ گری کا کوئی بھی امکاں نہ رہا
کہکشاں جب سے بچھائی ہے تِری راہوں میں
پھر جہاں بھر میں کوئی تم سا تو ذیشاں نہ رہا
شام ہوتے ہی چراغوں کو جلایا میں نے
شہر بھی شہر لگے دشت بھی ویراں نہ رہا
شوقِ منزل تو ہر اک گام بڑھا دیتی ہے
عشق کرنا بھی تو سمجھو کہ یوں آساں نہ رہا
چاہتیں دل میں چھپی ہیں گو بہت سی میری
ہمسفر وہ نہ بنا، پھر کوئی ارماں نہ رہا
یوں تو کاٹی شبِ تنہائی کئی بار غنیم
ضبط پھر ہو نہ سکا، راز بھی عریاں نہ رہا
لبنیٰ مقبول غنیم
No comments:
Post a Comment