خزاں بہار کا جھگڑا کھڑا نہ ہونے دیا
شجر لگایا بھی خود، خود ہرا نہ ہونے دیا
یوں فرض اپنا نبھاتے رہے طبیب سبھی
کسی کو تیرے مرض کی دوا نہ ہونے دیا
ہر ایک بار کئے وعدے جاں فزا تجھ سے
ہر ایک بار مگر کچھ نیا نہ ہونے دیا
قدم قدم پہ گرے سر کٹائے، اُف بھی نہ کی
کسی شکاری کو ہم نے خفا نہ ہونے دیا
لُٹا کے بیٹھے ہیں سب مال، جان و تن جن پر
انہیں گِلہ ہے کہ ان کو خدا نہ ہونے دیا
ہماری قوم کو محسن کشی کی عادت ہے
کسی بھی لعل کا حق ہی ادا نہ ہونے دیا
ستم یہ ہے کہ تہتر برس کا ہو کے بھی
یہ بچہ پاؤں پہ ہم نے کھڑا نہ ہونے دیا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment