سال شروع ہونے پر میں نے
سُنی تری آواز
اور کیا آغاز
رات تِری آواز کی سرسبز و شاداب فضا میں
وصل تِرے کے دِیپ جلے
کچھ ایسے تیز ہوا میں
راہ تِرے تلووں سے روشن
تیرا رنگ ردا میں
کمرے میں بُک شیلف پہ رکھی
اک آیت سی نظم
سانسوں کی مالا کو چُھو کر
وجد میں لے آتا ہوں
اور تِرے آنچل کو خود پر
اوڑھ کے سو جاتا ہوں
روز تجھی کو خواب میں چُھو کر
زندہ ہو جاتا ہوں
مشرق سے مغرب کی سمت
روانہ ہوتے دن کی
روز جبیں پر لکھ دیتا ہوں
عشق کا اک پیغام
آشا اور لتا جی کی
غزلوں سے بھیگی شام
بسم اللہ جی کی شہنائی
شوکت جی کا طبلہ
نُوری کی آواز
سال شروع ہونے پر میں نے
سُنی تِری آواز
اور کیا آغاز
اور کیا آغاز
ندیم ناجد
No comments:
Post a Comment