یہ بات دل سے کہوں گا فقط زباں سے نہیں
کوئی ملال مجھے جورِ دوستاں سے نہیں
قفس نصیب کو اب ربط گلستاں سے نہیں
زمینِ گل سے نہیں شاخِ آشیاں سے نہیں
ملال ہے تو عدو کی شکاہتوں کا انہیں
کبھی تو آئیے دو گام چل کے بندہ نواز
دور مرا مکاں آپ کے مکاں سے نہیں
سوالِ وصل پہ مبہم سا یہ جواب ملا
نگاہ سے تو کہی، ہاں، زباں سے نہیں
ہمارے سر پر اب الزامِ بے رخی کیسا
وہاں سے بات اٹھائی گئی یہاں سے نہیں
جو سن سکو تو مکمل ہمارا حال سنو
ہم ابتدا سے سنائیں گے درمیاں سے نہیں
ہے تری مانگ کی آفشاں سے زندگی روشن
یہ ان فلک کے تاروں سے، کہکشاں سے نہیں
ملال ہے تو فقط عرضِ غم پہ ظالم کو
گرفتہ دل وہ مری گرمئ فغاں سے نہیں
نصیؔر اپنا تعلق اس آستاں سے ہے
جو اپنے رتبے میں کم ہفت آسماں سے نہیں
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment