سکوں ملے نہ ملے یا قرار ہو کے نہ ہو
چمن کی خیر الہٰی! 🎕بہار ہو کے نہ ہو🎕
ہم اس کے یار ہیں، وہ اپنا یار ہو کے نہ ہو
ہمیں تو اس سے پیار ہے، اس کو پیار ہو کے نہ ہو
اٹی ہوئی ہیں تلون کی دھول سے نظریں
مجھے ہے تم سے محبت مجھے ہے تم پہ یقیں
میری قسم کا تمہیں اعتبار ہو کے نہ ہو
تجھے تو اپنی ستم رانیوں سے مطلب ہے
تری بلا سے کسی کو قرار ہو کے نہ ہو
ہمارے دل کے ہو مالک تمہی دو عالم میں
تمہارے دل پر ہمیں اختیار ہو کے نہ ہو
اب آ گئے ہو، تو کچھ دیر میرے پاس رہو
یہ اتفاقِ حسیں بار بار ہو کے نہ ہو
گلوں کے حال پر شبنم ضرور روئے گی
وہ آنکھ میرے لئے اشکبار ہو کے نہ ہو
نصیر! شمع تو جلتی رہے گی محفل میں
بلا سے کوئی پتنگا نثار ہو کے نہ ہو
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment