Friday 2 November 2018

کوتوال بیٹھا ہے کیا بیان دیں اس کو

کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسے تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
وہ گزر گئی دل پر جو بیاں نہ ہو پائے
ہاں لکھو کہ سب سچ ہے، سب درست الزامات
اپنا جرم ثابت ہے
جو کیا بہت کم تھا، صرف یہ ندامت ہے
کاش وقت لوٹ آئے، حق ادا ہوا ہے کب
یہ کرو اضافہ اب، جب تلک ہے دم میں دم
پھر وہی کریں گے ہم، ہو سکا تو کچھ بڑھ کر
پھر وہ گیت چھیڑیں گے
تیرہ زاد ہر آمر، کانپ اٹھے جسے پڑھ کر
پھر وہ حرف لکھیں گے
بستہ دست ہر مظلوم، جھوم اٹھے جسے گا کر
چیتھڑا ہے یہ قانون
باغیوں کے قدموں کی، اس سے دھول جھاڑیں گے
آمری نحوست ہے یہ نظامِ احکامات
بیچ چوک پھاڑیں گے
وقت آنے والا ہے، ہر حساب ہم لیں گے
جب حساب ہم لیں گے، پھر جواب دینے کو تم مگر کہاں ہو گے
خار و خس سے کم تر ہو، راستے کے کنکر ہو
جس نے راہ گھیری ہے، وہ تمہارا آقا ہے
ہم نے دل میں ٹھانی ہے، راہ صاف کر دیں گے
تم کہ صرف نوکر ہو، تم کو معاف کر دیں گے

فہمیدہ ریاض

No comments:

Post a Comment