کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسے تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
وہ گزر گئی دل پر جو بیاں نہ ہو پائے
اپنا جرم ثابت ہے
جو کیا بہت کم تھا، صرف یہ ندامت ہے
کاش وقت لوٹ آئے، حق ادا ہوا ہے کب
یہ کرو اضافہ اب، جب تلک ہے دم میں دم
پھر وہی کریں گے ہم، ہو سکا تو کچھ بڑھ کر
پھر وہ گیت چھیڑیں گے
تیرہ زاد ہر آمر، کانپ اٹھے جسے پڑھ کر
پھر وہ حرف لکھیں گے
بستہ دست ہر مظلوم، جھوم اٹھے جسے گا کر
چیتھڑا ہے یہ قانون
باغیوں کے قدموں کی، اس سے دھول جھاڑیں گے
آمری نحوست ہے یہ نظامِ احکامات
بیچ چوک پھاڑیں گے
وقت آنے والا ہے، ہر حساب ہم لیں گے
جب حساب ہم لیں گے، پھر جواب دینے کو تم مگر کہاں ہو گے
خار و خس سے کم تر ہو، راستے کے کنکر ہو
جس نے راہ گھیری ہے، وہ تمہارا آقا ہے
ہم نے دل میں ٹھانی ہے، راہ صاف کر دیں گے
تم کہ صرف نوکر ہو، تم کو معاف کر دیں گے
فہمیدہ ریاض
No comments:
Post a Comment