محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
ترے شہر میں اک جہاں چھوڑ آئے
وہ سبزہ، وہ دریا، وہ پیڑوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھوڑ آئے
پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رت وہ سماں چھوڑ آئے
بہت دور ہم آ گئے اس گلی سے
بہت دور وہ آستاں چھوڑ آئے
بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
مگر ہم انہیں مہرباں چھوڑ آئے
بگولوں کی صورت یہاں پھِر رہے ہیں
نشیمن سرِ گلستاں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
چلے آۓ ان رہگزاروں سے جالب
مگر ہم وہاں قلب و جاں چھوڑ آئے
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment