خطِ ہجراں
آج سے ضبط کے صحرا کی طرف چلنا ہے
آج سے قرض اٹھانے ہیں تِرے غم کے بس
آج سے بجھتے چراغوں سے سخن کرنے ہیں
آج سے یاد کے موسم کی ہوا چلنی ہے
آج سے بوجھ تمناؤں کے اٹھائے پھروں گی
آج سے نوحہ گری ہو گی فقط اہلِ ہجر
آج سے نغمہ گری ہو گی سپردِ ماضی
آج سے دردِ مسلسل کا فسوں جاگے گا
آج سے پیاس سرِ صحنِ بدن ناچے گی
آج سے میری جبیں بجھتی نظر آئے گی
آج سے دل میں کوئی درد نہیں چمکے گا
آج سے بس زرِ افسوس کمانا ہے ہمیں
آج سے آنکھ میں بھرنی ہے فقط خاک ہمیں
آج سے حجرۂ غم کھول دیا جائے گا
آج سے مجلسِ فرقت پہ بہار آئے گی
آج سے مرتے ہوئے عشق میں ہم دونوں ہی
سانس لینے کی مشقت کا ہنر سیکھیں گے
آج سے نیند تمہاری نہیں ہو گی غارت
آج سے میں بھی کوئی خواب نہیں دیکھوں گی
آج سے تم مجھے سنجیدہ نہیں دیکھو گے
آج سے آگے تمہارے میں ہنسوں گی اتنا
خود بتاؤ کہ محبت کا یہ انداز ہے کیا
میں ترا نام بھی لے سکتی نہیں کھل کر اب
تم ہمیشہ کی طرح آج ہو منزل میری
میں ہمیشہ کی طرح آج بھی رستے میں ہوں
تم زمانے کے طرفدار ہو اب تک سوچو
میں زمانے سے الگ محوِ سفر ہوں دیکھو
فیصلہ ہجر کا کرنا ہے اگر تو اپنا
ایک اک لفظ مِرے دل سے مٹا کر جانا
آج سے خاک کی صورت ہی اڑانا مجھ کو
آج سے کنجِ تغافل میں سجانا مجھ کو
آج سے صبر کی روداد مجھے لکھنی ہے
آج سے میر کی غزلیں نہ سنانا مجھ کو
سعدیہ صفدر سعدی
No comments:
Post a Comment