Sunday 4 November 2018

ایک رخ

ایک رخ

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی
دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی
جلے ہوئے خیموں میں سہمی ہوئی روشنی
سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں

ایسے ہر منظر کے بعد اک سناٹا چھا جاتا ہے
یہ سناٹا طبل و عَلَم کی دہشت کو کھا جاتا ہے
سناٹا فریاد کی لَے ہے احتجاج کا لہجہ ہے
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بہت پرانا قصہ ہے
ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں
وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

افتخارعارف

No comments:

Post a Comment