مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
اک دید مجھے اکساتی ہے
کوئی آیت یاد دلاتی ہے
اک مصحف سامنے آتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
آ حیرت کو حیران کریں
دل زاد سمے کا دھیان کریں
گُر شبد مجھے سمجھاتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
اک جست بھری، پرواز ہوا
من سادھو سے شہباز ہوا
اب نو دروازوں سے آگے
دسویں کا بلاوا آتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
مِری رمز انوکھی دھیان جدا
مِرا روم الگ، ملتان جدا
میں جسم کا برزخ گھوم آیا
ہاہُوت کا مکھڑا چوم آیا
اب کون کسے بہلاتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
رومی سرمد بلھا باہو
ہر ایک نفس یا ہو یا ہو
شبلی کی طرف بانہیں کر کے
منصور مجھے دہراتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
حق یار علی زریون پِیا
وہی سندر عشق جنون پِیا
جو ہر دم خیر سکون پِیا
مجھے اپنی راہ دکھاتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
مجھے عشق فقیر بلاتا ہے
علی زریون
سلامت رھو
ReplyDeleteواہ کیا بات ہے
ReplyDelete