فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقّارے وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
گِلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو، پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں، وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو
زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اِترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمنِ عالم بھی ہوتے ہیں
خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا
جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں
طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی
کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں
جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں، تو فرماتے ہیں مر جاؤ
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں
کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment