شہر سے ہوتی ہوئی گاؤں تلک جاتی ہے
سبز پیڑوں کی طرف ایک سڑک جاتی ہے
یک بہ یک یاد کوئی شخص مجھے آتا ہے
یک بہ یک آنکھ مِری یونہی چھلک جاتی ہے
جب تِرے وصل کی امید پکارے مجھ کو
سوچتی ہوں جو تِرے شہر سے ہحرت کر لوں
سوچتی ہوں تو مِری سانس اٹک جاتی ہے
ٹوٹ جاتا ہے کبھی وعدہ وفا کا سعدی
اور محبت کبھی پنکھے سے لٹک جاتی ہے
سعدیہ صفدر سعدی
No comments:
Post a Comment