موج در موج مچلتا ہوا پانی رکھتا
تُو کہ دریا تھا سو دریا سی روانی رکھتا
تیرا کردار مثالی ہی نہیں تھا، ورنہ
ہر کہانی سے الگ اپنی کہانی رکھتا
نئے لوگوں، نئی دنیا سے شناسا ہو کر
شاعری بول کہ تُو مجھ سے گریزاں کیوں ہے
تُو جو کہتی، ترے قدموں میں جوانی رکھتا
اور کچھ روز وہ کرتا یہ چراغاں مجھ میں
اور کچھ روز یونہی شام سہانی رکھتا
میں وہاں تھا تو زمیں پر ہی نہیں تھا جیسے
یاد اس شہر کی پھر کیسے نشانی رکھتا
کاش ہو سکتا محبت کے لغت میں شامل
لفظ وہ لفظ جو بھرپور معانی رکھتا
شمشیر حیدر
No comments:
Post a Comment