یہ رنجٍ رائیگانی ہی بہت ہے
محبت کی نشانی ہی بہت ہے
تِرے صحرا کی جتنی پیاس بھی ہو
مِری آنکھوں کا پانی ہی بہت ہے
تمہیں برباد کرنے کو تمہارا
پرندوں کے مصائب مت سناؤ
مجھے میری کہانی ہی بہت ہے
نئے ماحول میں بھی دل خفا تھا
یہ دنیا تو پرانی ہی بہت ہے
دئیے کیسے بھلائیں گے ہوا کو
ہوا کی مہربانی ہی بہت ہے
مجھے حیرت سے دریا کیوں نہ دیکھے
طبیعت میں روانی ہی بہت ہے
شمشیر حیدر
No comments:
Post a Comment