کسی کے جبر کا دل میں خیال کیا کرتا
تمام شہر تھا دشمن، بلال کیا کرتا
برس رہے تھے خلاؤں سے آتشیں نیزے
بدن پہ اوڑھ کے کاغذ کی ڈھال کیا کرتا
نگر کے سارے پرندے ہی پر شِکستہ تھے
سبھی مکان مقفۤل تھے میری بستی کے
کسی کے در پہ بھکاری سوال کیا کرتا
مکِین اپنے ہی ترکے سے لا تعلق تھے
پرائے گھر کی کوئی دیکھ بھال کیا کرتا
رفیق سندیلوی
No comments:
Post a Comment