محل سے شاہ نے دیکھا ہی تھا جلال سمیت
ہجوم سہم گیا اپنے اشتعال سمیت
یہ گورکن نے کہا لے کے آخری ہچکی
اتار دینا مجھے قبر میں کدال سمیت
برہنہ جسم کھڑی ہے ندی میں شہزادی
سنیں جو کونج کی کُرلاہٹیں فضاؤں میں
سپاہی گر گئے خندق میں اپنی ڈھال سمیت
بھڑکتی آگ نے مندر کو گھیر رکھا تھا
پجاری لوٹ گیا گھر گُلوں کے تھال سمیت
رفیق سندیلوی
No comments:
Post a Comment