نہ حرفِ شوق نہ طرزِ بیاں سے آتی ہے
سپردگی کی صدا جسم و جاں سے آتی ہے
کوئی ستارہ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا
مجھے خود اپنی خبر آسماں سے آتی ہے
کسی دکان سے ملتی نہیں ہے گرمیٔ شوق
کھلا نہیں ہے وہ مجھ پر کسی بھی پہلو سے
نہیں کی گونج ابھی اس کی ہاں سے آتی ہے
عجیب شے ہے نشاطِ یقیں کی دولت بھی
کسی وجود کے وہم و گماں سے آتی ہے
پرندے شام ڈھلے راہ میں نہیں رکتے
کوئی نوید انہیں آشیاں سے آتی ہے
گریز بھی کہیں اظہارِ آرزو ہی نہ ہو
کشش یہ کیسی بدن کی کماں سے آتی ہے
کسی حجاب کی بندش کو مانتی ہی نہیں
جو موج روح کی جوئے رواں سے آتی ہے
ارمان نجمی
No comments:
Post a Comment