اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
وہ تغافل شعار میں بے تاب
واجب القتل ہے دلِ بے تاب
کشتہ ہونا ہی خوب ہے سیماب
ابر کی تیرگی میں ہم کو تو
اپنی کشتی کا ہے خدا حافظ
پیچھے طوفاں ہے سامنے گرداب
بوسہ مانگا تو یہ جواب ملا
سیکھئے پہلے عشق کے آداب
اس کو پھرتا ہے ڈھونڈھتا ہر سُو
کیونکر آنکھوں سے اڑ نہ جائے خواب
دردِ الفت جو ہوتے ہی مرتے
یہ اذیت نہ کھینچتے احباب
نہیں ممکن کہ جمع ہوں دونوں
ساقی مہروش شبِ مہتاب
سامنے اس کے جو ٹھہر جائیں
نہیں بے تابیوں کو اتنی تاب
اہلِ عالم سے چاہتا ہوں وفا
اس کا طالب ہوں جو کہ ہے نایاب
عشق کے ساتھ ہی گئے دل و دِیں
آ گئی سیل، بہہ گیا اسباب
صاف فقرے ہوں اور ہمیں پر ہوں
شیوہ اچھا تو ہے مرا آداب
ہوتی گر اس جہاں میں کچھ خوبی
کہتے کیوں پھر صفت میں اس کی خراب
آزمانا نہ دل کو سختی سے
ٹوٹ جائے نہ یہ دُرِ نایاب
کس طرح بحرِ عشق سے نکلوں
یہ تو دریا کہیں نہیں پایاب
شعلۂ حسن! تیرا کیا کہنا
پھونک دے اس کے پردہ ہائے حجاب
اس کی شوخی کا ہے تعجب کیا
حسن یہ کچھ اور اس پہ عین شباب
غالب آئے ہیں لاؤ اے مجروحؔ
بادۂ ناب میں ملا کے گلاب
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment