ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
وہ بولے کہ پھر سر پھرانے لگے
کہا تھا، اٹھا پردۂ شرم کو
وہ الٹا ہمیں کو اٹھانے لگے
ذرا دیکھیے ان کی صنّاعیاں
کہا میں نے مل یا مجھے مار ڈال
وہ جھٹ آستینیں چڑھانے لگے
مجھے آتے دیکھا جونہی دور سے
قدم وار جلدی اٹھانے لگے
اٹھے وہ تو اک حشر برپا کیا
جو بیٹھے تو فتنہ اٹھانے لگے
غذا غم میں تھی میری خونِ جگر
اب اعدا کا بھی رشک کھانے لگے
کمال تعشق نہیں ہے ہنوز
ابھی سے وہ منہ کو چھپانے لگے
خفا ہو کے جب بے بلاۓ گیا
مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے
غنیمت ہے اتنا تو اٹھا حجاب
کہ اب خواب میں بھی وہ آنے لگے
وہ دل کے اڑانے سے واقف نہ تھے
ہمیں تو یہ گھاتیں بتانے لگے
مگر ان پہ رازِ محبت کھلا
جو مجروحؔ سے بچ کے جانے لگے
میر مہدی مجروح
No comments:
Post a Comment