اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے
کہ جہاں خواب بھی ٹوٹے تو صدا آتی ہے
میں نے زندان میں سیکھا تھا، اسیروں سے اک اِسم
جس کو دیوار پہ پھونکیں تو ہوا آتی ہے
خوب رونق تھی ان آنکھوں میں، پھر اک خواب آیا
لڑنے جاتے ہیں کہ کچھ مالِ غنیمت لے آئیں
اور پھر گھر کی طرف سرخ زرہ آتی ہے
اس کو پردے کا تردد نہیں کرنا پڑتا
ایسا چہرہ ہے کہ دیکھیں تو حیا آتی ہے
ٹھیک ہے، ساتھ رہو میرے، مگر ایک سوال
تم کو وحشت سے حفاظت کی دعا آتی ہے؟
صحن میں پھرتی ہے برسوں کی سدھائی ہوئی یاد
جب بھی پُچکار کے کہتا ہوں کہ “آ”، آتی ہے
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment