Monday, 21 May 2018

اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے

اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے
کہ جہاں خواب بھی ٹوٹے تو صدا آتی ہے
میں نے زندان میں سیکھا تھا، اسیروں سے اک اِسم
جس کو دیوار پہ پھونکیں تو ہوا آتی ہے
خوب رونق تھی ان آنکھوں میں، پھر اک خواب آیا
ایسے، جیسے کسی بستی میں وبا آتی ہے
لڑنے جاتے ہیں کہ کچھ مالِ غنیمت لے آئیں
اور پھر گھر کی طرف سرخ زرہ آتی ہے
اس کو پردے کا تردد نہیں کرنا پڑتا
ایسا چہرہ ہے کہ دیکھیں تو حیا آتی ہے
ٹھیک ہے، ساتھ رہو میرے، مگر ایک سوال
تم کو وحشت سے حفاظت کی دعا آتی ہے؟
صحن میں پھرتی ہے برسوں کی سدھائی ہوئی یاد
جب بھی پُچکار کے کہتا ہوں کہ “آ”، آتی ہے

عمیر نجمی

No comments:

Post a Comment