Thursday, 17 May 2018

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے

دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے 
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے 
بے تابی کچھ اور بڑھا دی ایک جھلک دکھلا دینے سے 
پیاس بجھے کیسے صحرا کی دو بوندیں برسا دینے سے 
ہنستی آنکھیں لہو رلائیں کھلتے گل چہرے مرجھائیں 
کیا پائیں بے مہر ہوائیں دل دھاگے الجھا دینے سے 
ہم کہ جنہیں تارے بونے تھے ہم کہ جنہیں سورج تھے اگانے 
آس لیے بیٹھے ہیں سحر کی جلتے دیے بجھا دینے سے 
عالیؔ شعر ہو یا افسانہ، یا چاہت کا تانا بانا 
لطف ادھورا رہ جاتا ہے پوری بات بتا دینے سے

جلیل عالی

No comments:

Post a Comment