دل جو ناگاہ بے قرار ہُوا
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا
شب کا پہنا جو دن تلک ہے مگر
ہار اس کے گلے کا ہار ہوا
گرد سر اس کے جو پھِرا میں بہت
بسترِ خواب سے جو اس کے اٹھا
گلِ تر سوکھ سوکھ خار ہوا
مجھ سے لینے لگے ہیں عبرت لوگ
عاشقی میں یہ اعتبار ہوا
روز و شب روتے کڑھتے گزرے ہے
اب یہی اپنا روزگار ہوا
روؤں کیا اپنی سادگی کو میرؔ
میں نے جانا کہ مجھ سے یار ہوا
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment