Wednesday 19 February 2014

کسی اداس جہاں کی بشارتیں ہی ملیں

کسی اداس جہاں کی بشارتیں ہی ملیں
ہمیں تو شہر میں ہر سُو زیارتیں ہی ملیں
بس اِک نگاہ سے اس کی بدل گئے موسم
مزاجِ یار میں ایسی شرارتیں ہی ملیں
ہمیں بھی حاتمِ طے ہی سمجھ لیا اس نے
ہر اِک مقام پہ ہم کو بُجھارتیں ہی ملیں
بڑھی جو بھوک تو اپنا ہی گھر جلا ڈالا
غریبِ شہر میں ایسی جسارتیں ہی ملیں
زباں میں زہر بھرا تھا، نظر میں فریادیں
وہ شخص کون تھا جس کو حقارتیں ہی ملیں
کسی بھی دور میں جن کے لئے زوال نہ تھا
ہر ایک دور میں ان کو وزارتیں ہی ملیں

نیلما درانی

No comments:

Post a Comment