کسی اداس جہاں کی بشارتیں ہی ملیں
ہمیں تو شہر میں ہر سُو زیارتیں ہی ملیں
بس اِک نگاہ سے اس کی بدل گئے موسم
مزاجِ یار میں ایسی شرارتیں ہی ملیں
ہمیں بھی حاتمِ طے ہی سمجھ لیا اس نے
بڑھی جو بھوک تو اپنا ہی گھر جلا ڈالا
غریبِ شہر میں ایسی جسارتیں ہی ملیں
زباں میں زہر بھرا تھا، نظر میں فریادیں
وہ شخص کون تھا جس کو حقارتیں ہی ملیں
کسی بھی دور میں جن کے لئے زوال نہ تھا
ہر ایک دور میں ان کو وزارتیں ہی ملیں
نیلما درانی
No comments:
Post a Comment