Wednesday 19 February 2014

اجازت: او جانے والے چلے ہی جانا ذرا رکو تو ذرا

اجازت

او جانے والے
چلے ہی جانا
ذرا رُکو تو 
ذرا، سُنو تو
تمہاری خاطر جو لمحہ لمحہ بکھرتے آنسو جمع کئے تھے
جو درد سارے یُوں سہہ لئے تھے
اُن آنسوؤں کا حساب لے لو
سلام کہہ دو جواب لے لو
چلے ہی جانا
ذرا رُکو تو 
ذرا، سُنو تو

جو دِیپ دل کی اندھیر راہوں میں رفتہ رفتہ ہوئے تھے روشن
جو گیت کرتے تھے تیرے درشن
وہ گیت سارے، وہ دِیپ سارے
جلا کے جانا، بُجھا کے جانا
نظر نظر سے مِلا کے جانا 
چلے ہی جانا
ذرا رُکو تو 
ذرا، سُنو تو

قدم قدم پر بکھرتے پتے تمہاری یادیں کریں گے تازہ
یہ سب بہاریں بھی ساتھ لے لو
چہکتے بُلبل کا ساز لے لو
گُلوں کی رنگت کا راز لے لو
تمام منظر سراب کر دو
سبھی امنگوں کو خواب کر دو
سُنو 
یہ کارِ ثواب کر دو
چلے ہی جانا 
ذرا رُکو تو
ذرا، سُنو تو 

ابن منیب
نوید رزاق بٹ

No comments:

Post a Comment