جس طرف جائیں زمانہ روبرو آ جائے ہے
اے خیالِ یار! اگر ایسے میں تُو آ جائے ہے
پھر کوئی چارہ گروں کے ناز اٹھائے کس لئے
وحشیوں کو بھی اگر کارِ رفُو آ جائے ہے
پھر کہاں دنیا جہاں کے تذکرے اِک بار اگر
ہم تہی دستوں کی پھردریا دِلی بھی دیکھیو
دستِ مستاں میں اگر دستِ سبُو آ جائے ہے
مدتوں کی تشنگی کے بعد اِک صہبا کا گُھونٹ
جس طرح صحرا میں کوئی آبجُو آ جائے ہے
اے مصور! حسنِ جاناں نقشِ جاناں میں کہاں
کب تِری تصویر میں وہ ہو بہو آ جائے ہے
کثرتِ گریہ نے آخر رنگ دِکھلانا تو تھا
اب بجائے اشک آنکھوں میں لہو آ جائے ہے
تِری بیتیں، تیری باتیں، کیا کہیں، کیا ہیں فراز
بزم سج جاتی ہے جس محفل میں تُو آ جائے ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment