Friday 28 February 2014

کون اب قصہ چشم و لب و ابرو میں پڑے

کون اب قصۂ چشم و لب و ابرُو میں پڑے
بارے آرام سے ہیں اپنے ہی پہلُو میں پڑے
عشق نے حُسن کے معیار بدل ڈالے ہیں
یار ابھی تک ہیں اُسی قامت و گیسُو میں پڑے
دیکھ اے صاحبِ انصاف! عدالت اپنی
ہم بھی قاتل کے مقابل ہیں ترازُو میں پڑے
خود کو لے آئے تھے ہنگامۂ دُنیا سے الگ
اب پریشاں ہیں کسی گوشۂ یکسُو میں پڑے
ہم بھی ایک شعلہ شمائل کو لیے ساتھ چلیں
اب کے گر برف، کُہستانِ سکردُو میں پڑے
ہر طرف ایک صنم خانۂ حیرت ہے فرازؔ
تم ابھی تک ہو اُسی شخص کے جادُو میں پڑے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment