Tuesday 18 February 2014

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
یارو! یہ کیسی ہَوا ہے اب کے
دوست بِچھڑے ہیں کئی بار مگر
یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے
پتّیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتلِ گل عام ہُوا ہے اب کے
شفقی ہو گئی دیوارِ خیال
کس قدر خُون بہا ہے اب کے
منظرِ زخمِ وفا کس کو دکھائیں
شہر میں قحطِ وفا ہے اب کے
وہ تو پھر غیر تھے لیکن یارو
کام اپنوں سے پڑا ہے اب کے
کیا سُنیں شورِ بہاراں ناصرؔ
ہم نے کچھ اور سُنا ہے اب کے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment