Tuesday 18 February 2014

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اپنی رسوائی، تِرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھندلا گئیں آنکھیں بھی مِری
بھولنے والے، میں کب تک تِرا رَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سَکھیاں
آج میں خود کو تِری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مِری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ، جو اپنا دیکھوں
تو مِرا کچھ نہیں لگتا ہے، مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
سب ضِدیں اس کی میں پوری کروں، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح مِرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے، اسے بس اِک بار
اب بن کر تِری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تُو مِری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب
دل میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پِگھل جائیں مِرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment