Friday 14 February 2014

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے

کسی کی آنکھ جو پُر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے

سُلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لَو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے سِتم پروردگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے، مگر محرم نہیں ہے
دلوں کی روشنی بُجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی مُحکم نہیں ہے
میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے
جو کوئی سُن سکے امجدؔ تو دنیا
بجُز اک بازگشتِ غم نہیں ہے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment