Sunday 23 February 2014

بس یہی شمعیں بچی تھیں یہ بھی بجھوا دی گئیں

بس یہی شمعیں بچی تھیں یہ بھی بُجھوا دی گئیں
اُنگلیاں میری عجائب گھر میں رکھوا دی گئیں
ایک گونگے کو مِلی پھر خُوش کلامی کی سند
میرے لفظوں کی زبانیں پھر ترشوا دی گئیں
اس کی جانب ہم نے چلنے کا ارادہ جب کیا
راستے کی ساری پہچانیں بدلوا دی گئیں
فصلِ گُل کا شہر میں ہونا دکھانے کے لئے
ہر طرف تصویریں برگ و گُل کی لگوا دی گئیں
دُور لے جائی گئی ساحل سے کشتی، اور پھر
بادباں کی رسیاں طُوفاں سے بندھوا دی گئیں
مشورہ دے کر مجھے اِک فیصلہ کُن جنگ کا
میری خبریں میرے دُشمن کو پہنچوا دی گئیں
راستے میں کیا بِچھائیں گے اگر وہ آ گیا
دھڑکنیں تو اب کے اظہرؔ گروی رکھوا دی گئیں

اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment