Saturday 22 February 2014

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بے کار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment