کیسی تاوِیل مِرے دوست، بہانہ کیسا
زخم جاگیرِ محبت ہیں، چُھپانا کیسا
شِدّتِ لمس سے جلتا ہے بدن، جلنے دو
پہلوئے یار میں دامن کو بچانا کیسا
شعر در شعر ٹپکتا ہے قلم سے میرے
آ کے اِک روز بچا لے گا مسیحا کوئی
دیکھ بیٹھے تھے سبھی خواب سُہانا کیسا
دن کے ڈھلتے ہی تِری یاد کی خُوشبو بن کر
جاگ اُٹھتا ہے کوئی درد پرانا کیسا
ہم نے ہر موڑ پہ بیچا ہے اصولوں کو نوید
اور اب ہم کو شکایت، ہے زمانہ کیسا
ابن منیب
نوید رزاق بٹ
No comments:
Post a Comment