Saturday 15 February 2014

کھونا بھی نہیں ہے اسے پانا بھی نہیں ہے

کھونا بھی نہیں ہے اسے پانا بھی نہیں ہے
یہ کیا ہے کبھی اس کو بتانا بھی نہیں ہے
کردار ہے کوئی نہ کوئی ربط ہے اس میں
یہ تیرا افسانہ تو فسانہ بھی نہیں ہے
وہ قصہ جو دیوار میں چُنوایا گیا تھا
کچھ تازہ نہیں ہے تو پُرانا بھی نہیں ہے
دل ہے کہ اسی شہر کو جانے پہ اَڑا ہے
جس شہر میں جانے کا بہانہ بھی نہیں ہے
اس میں تِری یادوں کے کئی رنگ گُھلے ہیں
وہ اشک جسے ہم نے بہانا بھی نہیں ہے
اے شہر بدر کرتے ہوئے لوگو یہ سُن لو
پھر لوٹ کے ہم نے کبھی آنا بھی نہیں ہے
یہ واقعہ ہے پہلی ضرورت ہے ہماری
وہ شخص جسے ہم نے بتانا بھی نہیں ہے
اظہرؔ میری ویران ہتھیلی پہ لِکھا ہے
اِک ایسا زمانہ جو زمانہ بھی نہیں ہے

اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment