کھونا بھی نہیں ہے اسے پانا بھی نہیں ہے
یہ کیا ہے کبھی اس کو بتانا بھی نہیں ہے
کردار ہے کوئی نہ کوئی ربط ہے اس میں
یہ تیرا افسانہ تو فسانہ بھی نہیں ہے
وہ قصہ جو دیوار میں چُنوایا گیا تھا
کچھ تازہ نہیں ہے تو پُرانا بھی نہیں ہے
دل ہے کہ اسی شہر کو جانے پہ اَڑا ہے
جس شہر میں جانے کا بہانہ بھی نہیں ہے
اس میں تِری یادوں کے کئی رنگ گُھلے ہیں
وہ اشک جسے ہم نے بہانا بھی نہیں ہے
اے شہر بدر کرتے ہوئے لوگو یہ سُن لو
پھر لوٹ کے ہم نے کبھی آنا بھی نہیں ہے
یہ واقعہ ہے پہلی ضرورت ہے ہماری
وہ شخص جسے ہم نے بتانا بھی نہیں ہے
اظہرؔ میری ویران ہتھیلی پہ لِکھا ہے
اِک ایسا زمانہ جو زمانہ بھی نہیں ہے
یہ کیا ہے کبھی اس کو بتانا بھی نہیں ہے
کردار ہے کوئی نہ کوئی ربط ہے اس میں
یہ تیرا افسانہ تو فسانہ بھی نہیں ہے
وہ قصہ جو دیوار میں چُنوایا گیا تھا
کچھ تازہ نہیں ہے تو پُرانا بھی نہیں ہے
دل ہے کہ اسی شہر کو جانے پہ اَڑا ہے
جس شہر میں جانے کا بہانہ بھی نہیں ہے
اس میں تِری یادوں کے کئی رنگ گُھلے ہیں
وہ اشک جسے ہم نے بہانا بھی نہیں ہے
اے شہر بدر کرتے ہوئے لوگو یہ سُن لو
پھر لوٹ کے ہم نے کبھی آنا بھی نہیں ہے
یہ واقعہ ہے پہلی ضرورت ہے ہماری
وہ شخص جسے ہم نے بتانا بھی نہیں ہے
اظہرؔ میری ویران ہتھیلی پہ لِکھا ہے
اِک ایسا زمانہ جو زمانہ بھی نہیں ہے
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment